تم ملے ہو تو کیا خود سے کلام
ورنہ ہم چپ تھے بہت
اپنے ہی آپ سے بھی چپ تھے بہت
بات معمول نہیں ہوتی اگر سوچیں تو
بات قرآن ہوا کرتی ہے
بات فرمان ہوا کرتی ہے
بات میں ذات ہوا کرتی ہے شامل ورنہ
گفتگو میں کوئی تفریق ہی باقی نہ رہے
خود سے اک عمر خموشی میں کئی
جانے کس خوف نے کس خدشے نے جکڑی تھی زباں
جانے زنجیر تھی کیا لفظوں میں
اور تم آئے تو کیوں ٹوٹ گئی
خود کلامی کا یہ انداز بھی کیا خوب کہ ہم
تم سے بولے ہی چلے جاتے ہیں
بات رکتی ہی نہیں
ایک سے ایک پڑی روح کے ہونٹوں میں گرہ۔۔۔
کھولے ہی چلے جاتے ہیں
رنگ گھولے ہی چلے جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ