وہ سوچتا
انا تو صرف دور لے جانے کے لئے ہوتی ہے
فاصلے بڑھانے کے لئے
جدا کرنے کے لئے
خوابوں اور تمناؤں کے سینے پر رکھا ہوا بھاری پتھر
خواہشوں کی نگاہوں میں
گڑا ہوا نیزہ
چُنی ہوئی دیوار
پھیلا ہوا جنگل
اور ایستادہ پہاڑ
بھلا انا بھی کبھی خوش ہوتی ہے
میں تھک جاتا ہوں
بہت تھک جاتا ہوں
یہ بھاری چٹان مجھ سے اٹھائی نہیں جاتی
اور میرا دل مسل مسل دیتی ہے
پیس دیتی ہے
پیس دیتی ہے اور پھر مسل دیتی ہے
تم کب آؤ گے
اپنے سینے سے اپنی انا کا بوجھ ہٹا کے
فرحت عباس شاہ