رنج ہی رنج ہے فضاؤں میں
آج تو یوں گزر رہی ہے صبا
جیسے پازیب سی ہو پاؤں میں
ایک دو کچے راستوں کے سوا
اب مرا کچھ نہیں ہے گاؤں میں
میں ستارہ نہیں ہوں پتھر ہوں
ڈھونڈنا چھوڑ دو خلاؤں میں
اب مری ماں نہیں مرے سر پر
اب وہ ٹھنڈک نہیں ہے چھاؤں میں
اتنی جلدی بچھڑ گئے ہو تم
جا بسے ہو کہیں خلاؤں میں
کیا کوئی غم سنائی دیتا ہے
تم کو گزری ہوئی صداؤں میں
فرحت عباس شاہ