ورنہ بھلا کہاں کوئی کھنڈر بسا ہوا
آنکھوں کی خوش فریبی ذرا دیکھئے، لگا
دو چار کشتیوں سے سمندر بسا ہوا
اک مستقل خسارہ مرے ساتھ ساتھ ہے
اجڑا ہوا ہے دل، ہے اگر گھر بسا ہوا
مجھ کو یقین کاوشِ پیہم ہے اصل شے
تیرے دماغ میں ہے مقدر بسا ہوا
ہے کچھ نہ کچھ ضرور اسے باعث خوشی
گر دل نہیں تو پھر کوئی پتھر بسا ہوا
اک درد میرے چاروں طرف ہے ستم طراز
اک درد ہے وجود کے اندر بسا ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)