کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ دریاؤں میں بھی پانی نہیں آتا
کبھی ایسا بھی لگتا ہے
کہ آنکھوں کے سمندر میں کسی نے ریت بھر دی ہے بہت سی
اور کبھی کوئی کہانی
بس کسی روٹھے ہوئے پل کی کہانی
ایک سیلِ آب بھر دیتی ہے شریانوں کے صحرا میں
وہ نیلی شام
جو میں نے تری نمناک آنکھوں میں گزاری تھی
مری اس خشک سالی میں بلا کا معجزہ تھی
اور اس دن میں نے اپنے دل کی آنکھوں کو بہت سر سبز پایا تھا
تِرے رخسار پر بہتے ہوئے آنسو
مرے زخموں پہ گرتے تھے تو لگتا تھا دکھوں پہ رنگ اترے ہیں
تجھے معلوم ہے؟ یہ تشنگی مر بھی تو جاتی ہے
مگر اس پل
میں اپنی تشنگی کو پھر سے زندہ دیکھ کر ٹوٹا
تو کتنے دن
تری بھیگی ہوئی آنکھوں کا عالم یاد کر کر کے بہت رویا، بہت رویا
مرے اشکوں نے اس دن
میری پیلی روح کے جنگل میں کتنے جَل مرے پیڑوں کو
پھر سے زندگی دی تھی
وہ نیلی شام کتنی سبز تھی
یہ تو کوئی اس درد سے پوچھے
جو خوابوں اور خیالوں کی ہر اک کونپل پہ مہکی خوشبوؤں سے پھُوٹ آیا ہے
فرحت عباس شاہ