گھسٹ گھسٹ کبھی پڑتا کبھی ٹھہر جاتا
عجیب کوئی اذیت پسند تھا وہ بھی
کہ عین ہجر کی بے چینیوں میں یاد آتا
تمہارے بعد بھی گھر تک پہنچ نہیں پائے
تمہارے بعد ہمیں راستوں نے گھیر لیا
کسی طرح سے بھی ممکن نہ تھا کہ تیرے بنا
ہم اردگرد کے لوگوں سے رابطہ رکھتے
نحیف سانس کا کیا ہے کہ کوئی لمحہ بھی
ذرا جھٹک کے تسلسل ہی توڑ دے اس کا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)