تمہارا ہجر شدت سے مرے دل کو مسلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
سمندر آشنا آنکھوں میں صحرا آن بستے ہیں تمہیں جب بھول جاتا ہوں
پھر ان صحراؤں میں اک خواب کا چشمہ نکلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
میں اپنے ہاتھ سے تیری سنہری یاد کی پلکیں سجاتا ہوں خیالوں میں
خیالوں میں ترا موسم کئی پہلو بدلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تری پرچھائیاں ، ہر سو مرے، تنہائیوں کا رقص کرتی ہیں اداسی پر
مرے سینے میں اک بے چین سا بچہ مچلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
کسی فٹ پاتھ پر،بازار میں باغات میں یا پھرکسی دریا کنارے پر
بہت خوش ہو کے جب کوئی کسی کے ساتھ چلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
میں سارا دن کوئی سنگی مجسمہ بن کے رہتا ہوں مگر جب شام ڈھلتی ہے
مرے دل کی جگہ پر کوئی پتھر سا پگھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
تصور میں تمہارے سنگ بیتی بارشیں اکثر تمہیں آواز دیتی ہیں
نگاہوں میں تمہاری دھوپ کا اک دیپ جلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
کبھی کوئی ستارہ آنکھ سے ہوتا ہوا بجھتا ہے آکے گود میں گر کر
کبھی کوئی بہت ہی دور ابھرتا اور ڈھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
فرحت عباس شاہ