کوئی حصارمرے چار سُو ابھی تک ہے
بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے
وہ انتظار مرے چار سُو ابھی تک ہے
تو خود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہے مگر
تری پکار مرے چار سُو ابھی تک ہے
میں جب بھی نکلا مرے پاؤں چھید ڈالے گئے
جو خار زار مرے چار سُو ابھی تک ہے
میں اب بھی گرتے ہوئے پانیوں کی قید میں ہوں
اک آبشار مرے چار سُو ابھی تک ہے
کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سُو ابھی تک ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)