سیلاب میں ڈوبا ہوا راستہ
بند دروازہ
اور مرا ہوا ٹیلی فون
دل اور دل کے درمیان ٹھہری ہوئی بلائیں
شہر کے حالات ٹھیل ہوتے
تو میرا خط تمہیں اب تک مل گیا ہوتا
بارش نے آنکھیں بھی واضح نہیں رہنے دیں
ٹوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخ کی طرح
دل میں اترتا جا رہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنویں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم
فرحت عباس شاہ