جواب ڈھونڈ کے لائے، سوال کھو بیٹھے
عجب ہجوم تھا بےچینیوں کا سینے میں
ہم اپنی بھیڑ میں تیرا خیال کھو بیٹھے
جگہ جگہ پہ عجب بےکسی کا منظر ہے
نگر کے لوگ نگر کا جمال کھو بیٹھے
کبھی یہ لگتا ہے مجھ کو میں ایسا تاجر ہوں
جو راستے ہی میں سب اپنا مال کھو بیٹھے
ہمارا وقت ترے وقت سے زیادہ تھا
ترے دنوں میں تو ہم اپنے سال کھو بیٹھے
کوئی نہ کوئی زیاں ساتھ ساتھ تھا اپنے
خوشی کو ڈھونڈ کے لائے، ملال کھو بیٹھے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)