تمہیں پتہ ہے؟
کہ بارشوں نے گلہ کیا ہے
کہا ہے
پچھلی رفاقتوں کے بغیر جچتا نہیں ہے ساون
جو دل میں منہ زور دوریوں کی کسک نہ ہو تو
پھوار کھو بیٹھتی ہے اپنی تمام رنگت، تمام لمس اور تمام وارفتگیِ موسم
کہا ہے
گر دل میں آنسوؤں کا نگر نہ ہو تو
ہزار بھیگی رہیں ہوائیں
ہزار زلفوں کو چھو کے گزریں
کسی شجر پہ
بے وقت
بے ذات پانیوں کے اچھال دینے سے کم نہیں ہے
کہا ہے
جب تک اکیلے رستوں پہ چاہتوں کی مراجعت کا گماں نہ ہو تو
نہ بجلیوں کی چمک ہے زندہ
نہ بادلوں کی گرج میں دم ہے
نہ سیاہ کالی گھٹا میں رومان پروری ہے
کہا ہے
یہ ٹھیک ہے کہ ہم کو بہت ہی غم ہے
پسی ہوئی بے صدا خلش بے نوا تمنا، بے آسرا ہو مری وفا کا
مگر وہ کیا
کہ جو دل میں منہ زور دوریوں کی کسک نہ ہو تو
پھوار کھو بیٹھتی ہے اپنی تمام رنگت
کبھی بھی پچھلی رفاقتوں کے بغیر جچتا نہیں ہے ساون
تمہیں پتہ ہے کہ بارشوں نے گلہ کیا ہے؟
فرحت عباس شاہ