نہ عقیدہ ہائے دگر میں سکھ تھا نہ عشق میں
ہے اسی لیے ہمیں بے کلی کہ گیا کہاں
یہاں جو بھی خانہ گم تھا ہم نے بھگت لیا
نہیں راس عمر کو ماہ و سال کی تشنگی
یہی لحظہ بھر میں صدی، صدی میں ہے ایک پل
یہ گزر بسر ہے تو لاؤ عرش بریں یہاں
تمہیں اس سے کم پہ دکھائیں اوروں کی بستیاں
کم و بیش تو بھی ہے دشمنوں کے مزاج سا
کم و بیش تیری بھی نیتوں میں فتور ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)