جیسے کوئی آواز سی دیوار سے گزری
میں صبر کا اک کوہِ تجلی ہوا ثابت
اس روز قیامت مرے آثار سے گزری
تم گزرے نہیں اس کے جنگل سے تو فرحت
رو رو کے ہوا درد کے اشجار سے گزری
لفظوں میں کوئی جان سی پڑتی گئی غم کی
طاقت سی کوئی جب مرے اظہار سے گزری
ہوتی گئی اڑتے ہوئے کچھ سائیوں میں تقسیم
جب روشنی کونجوں کی کسی ڈار سے گزری
ڈالا مری اس جاں کو کٹھن راہ پہ تم نے
ننھی سی پری دشت کے آزار سے گزری
فرحت عباس شاہ