کبھی کبھی
آنکھیں جلتی ہیں
سانسیں منوں وزنی ہو جاتی ہیں
اور آتے جاتے سینے سے ٹکراتی ہیں
ہجوم میں کھوئے آدمی کی طرح
ہتھیلیوں پر پسینہ بے وجہ نہیں ہوتا
کچھ بھی بے وجہ نہیں ہوتا
دھوئیں سے اٹی ہوئی تعبیریں اٹھائے پھرتا ہوں
کہاں لے جاؤں
تمہارے پاس بھی تو وقت نہیں
تم بھی تو اس ملک کے سب لوگوں کی طرح ہو
جبور اور محصور اور معذور
تمہاری آنکھیں بھی تو جلتی ہیں
اور تمہاری سانسیں بھی تو منوں وزنی ہو جاتی ہیں
فرحت عباس شاہ