دل دروازہ کھول اُتر ویرانوں میں
پھیلتی جا تنہائی میرے تن من میں
ویرانی کچھ اور بکھر ویرانوں میں
کم از کم لوگوں سے تو محفوظ رہے
ڈال آئے ہیں ہم تو گھر ویرانوں میں
بس اک گہرا سکھ اور لمبی خاموشی
کس کا دکھ اور کیسا ڈر ویرانوں میں
بند کیے ہم پر بازار کے دروازے
کھولا تیری یاد نے در ویرانوں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)