تُو کیا جانے

تُو کیا جانے
تُو کیا جانے
نئی رتوں نے کیسے کیسے نقشے بدلے
کیسے کیسے
چال چلن تبدیل کیے
تُو کیا جانے
بھولپنے میں اٹھنے والے قدموں نے
کیسے کیسے میرے سفر طویل کیے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *