تو کرتی ہے کس بات پہ اصرار خموشی

تو کرتی ہے کس بات پہ اصرار خموشی
سب بولنے والے تو ہیں لا چار خموشی
کمرے میں پڑا رہتا ہے غمناک اندھیرا
آنگن میں بچھی رہتی ہے بیمار خموشی
پھر آج تلک روح سے جالے نہیں اترے
بولی تھی مرے کان میں اک بار خموشی
کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں خطا وار پکاریں
کچھ سوچتی رہتی ہے گنہگار خموشی
میں نے تو ہمیشہ تجھے بھیجی ہیں صدائیں
لوٹی ہے تری سمت سے ہر بار خموشی
کچھ باتیں غلط ہو کے بھی ہوتی ہیں ضروری
کچھ باتوں پہ پچھتانا ہے بے کار خموشی
جب ہم ہی یہاں بولنے والے ہیں تو پھر کیوں
ہم کو بھی بلاتی ہے سرِ دار خموشی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *