کہانی کے لیے کھڑکی نہیں ہے
اور اساطیری دریچہ دار سرگوشی
صریحاً سر سراہٹ پر مُصر ہے
خواب آسا منظروں کی پشت اور تصویر پر
ڈالی گئیں گہری خراشیں بھی
کسی فطری تقاضے کی طرح تہذیب کی ضد ہیں
مری آنکھوں پہ پٹی باندھ کے
اور مرے احساس کو مسدود کر کے
راستے تقسیم کروائے گئے ہیں
اور کسی معصوم بچے کی طرح دل
ہر کسی کے سمت پیما سے بندھا ہے
پیڑ اور شاخیں کبھی اک تند آندھی کی بلا کے سامنے ٹکتی نہیں ہیں اور
یہاں پر تو زمین و آسماں بھی منظروں سے دور ہیں
اشجار بھی زندان لگتے ہیں
فضا کی وسعتیں محبوس کر دیتی ہیں سینوں میں
میں کیا بولوں
میں اپنا اور تیرا راز کیا کھولوں
کہانی کے لیے کھڑکی نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)