آسانول مل دکھڑے کھیلیں
رو رو حال کہیں
جیون کی اک ایک مصیبت
گن گن رات گزاریں
اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے
اصلی بات گزاریں
رو رو خوشیاں یاد کریں ہم
ہنس ہنس درد کہیں
آ سانول مل دکھڑے کھیلیں
رو رو حال کہیں
ہجر وصال کے قصے چھیڑیں
صبح سے کر دیں شام
دل کی روشنیوں سے لکھیں
رات پہ غم کا نام
اک دوجے کی انگلی تھام کے
غم کے سنگ رہیں
آ سانول مل دکھڑے کھیلیں
رو رو حال کہیں
آنکھوں کے دریا سے نکلیں
یادوں کے سو رنگ
کھینچ کھانچ کے دل لے جائیں
ہیر سیال کے جھنگ
ان رنگوں کی لہروں پر ہم
آ سانول مل دکھڑے کھیلیں
ہو کر مست بہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)