ریگزاروں کی جوانی کچھ نہیں
دکھ سمندر میں، مصائب آسماں
بادبانی کشتیاں بن کے اگر پھرتے رہیں ہم
لاکھ دن اس زیست کے بحر مصیبت خیز میں
بے کار ہے اور بے مروت آسماں کی سائبانی کچھ نہیں
چاہت و نفرت، وصال و ہجر کی بے چینیاں بھی
تیز اور وحشی ہوا کی ڈار میں
اور فضائیں
بے کراں اندھی فضائیں
اجنبی و بے لحاظ و بے زباں
گھاس کی پتی
شجر کی شاخ، گیلی سبز لکڑی کا دھواں
منزلوں کی اور رستوں کی نشانی کچھ نہیں
سانس لینا ہی نہیں ہے زندگی
کسمسا لینا کہانی کچھ نہیں
ریت جتنی پھیل جائے ریت ہے
خشک ہو جائے تو پانی کچھ نہیں
آ پہاڑوں کی طرح زندہ رہیں
فرحت عباس شاہ