اب کے برس بھی ہو گی میرے ساتھ انوکھی

اب کے برس بھی ہو گی میرے ساتھ انوکھی
پچھلے برس بھی آئی تھی برسات انوکھی
میں دیوانہ وار دھڑک اٹھا نگری میں
اس نے آہستہ سے کی اک بات انوکھی
تیرے جیسی صفتیں کبھی نہ ملیں کسی میں
تیرے جیسی دیکھی کوئی نہ ذات انوکھی
اب کی بار تو صبر بھی بے صبری سے ہارا
اب کی بار لگائی دکھ نے گھات انوکھی
خود پر قابو پا کر جیت گئے دنیا سے
ہم نے اپنے ہاتھوں کھائی مات انوکھی
جتنے بانٹوں اتنے بڑھتے جاتے ہیں غم
یہ دولت آئی ہے میرے ہاتھ انوکھی
جب یہ چاند ستارے ہم سے روٹھ گئے تھے
تمھیں کبھی یاد آئی ہے وہ رات انوکھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *