آپ کے ساتھ بھی رہا ہوں میں
کس قدر خوشگوار رشتہ ہے
آپ ہیں پھول اور صبا ہوں میں
تم کو دل سے بھُلا کے لگتا ہے
جیسے بے انت اک خلا ہوں میں
راستہ انتہائی مشکل تھا
اور بہت دور تک چلا ہوں میں
اک تو بے آسرا ہوں اور اس پر
اپنی کشتی کا ناخدا ہوں میں
تو سمندر ہے میں پرندہ ہوں
تو ہے جنگل تو پھر ہوا ہوں میں
میں نے سننا نہیں ہے اب کچھ بھی
میں نے جب کہہ دیا خفا ہوں میں
کس طرح سے ہیں لازم و ملزوم
رات ہیں آپ اور دیا ہوں میں
کتنے جھوٹے تھے آپ کہتے تھے
اک فقط پیکرِ وفا ہوں میں
اس طرح شہر میں ہوں فرحت جی
جس طرح دشت میں صدا ہوں میں
فرحت عباس شاہ