تو نے چپ کا شور نہیں سنا؟
کوئی چپ کراہی ہے زور سے
میں جوان تھا تو مری سکون کی نیند بھی بڑی باخبر تھی
مگر ابھی مری بے قراری بھی بے خبر
میرا انتشار بھی بے خبر
کہیں رات کھانسی ہے دور سے
مرا کمرہ وہم سے بھر گیا ہے
مرا بدن مرے اپنے آپ سے ڈر گیا ہے
مرا لہو مرے دشت سے ترے دشت تک
یونہی آتے جاتے
یہیں کہیں کسی درمیان میں مر گیا ہے
جو مر گیا اسے لوگ کہتے ہیں گھر گیا ہے
یہ گم، یہ ہول، یہ سائیں سائیں، یہ خامشی
کوئی رو پڑے تو عذاب کم ہو قلوب پر
کوئی ہنس پڑے تو کسی کو ہنسنا چبھے
چبھے بڑے خاص طور سے روح میں
یہ تمام کھیل ہیں بات ، بات، کی گھات
گھات کی رات ، رات کی چپ
تو چپ کے عذاب کے
تو نے چپ کا شور نہیں سنا
میں نے چپ کا شور سنا ہے اور
مرے کان پھٹتے ہیں، دل تڑپتا ہے
روح ٹوٹ تڑخ ، چٹخ کے بکھرنے لگتی ہے
دشت ِ خوف کی ریت پر
مرے خون، خون کی اُون، اُون کے کھیت پر
فرحت عباس شاہ