تو نے دوراہا کہا

تو نے دوراہا کہا
تو نے دوراہا کہا
کر لیا مجھ کو بھی شامل اس میں
میں تری راہ کا پتھر بھی نہیں ہوں کہ تجھے
مجھ کو ٹھکرانے کے لیے رکنا پڑے
میں تو سوکھی ہوئی ٹہنی بھی نہیں ہوں کہ جو لمحہ بھر کو
جاتے جاتے ترے آنچل کو ذرا الجھا لے
میں تو جھونکا بھی نہیں ہوں جو تجھے سامنے سے آ کے لگے
اور تری رفتار کو دھیما کر دے
میں تو اک آہ سے بھی بے مایہ
وادی درد کا رہنے والا
جو ترے دیس میں آ نکلا ہو بھولا بھٹکا
اور تجھے شام سمجھ بیٹھا ہو
اور تجھے کرتا ہو محسوس کسی اور طرح
شہر والوں کو بھلا کیا معلوم
شام کو کس طرح محسوس کیا جاتا ہے
دیکھ کر؟
چھو کے؟
یا
سُن کے؟
یا کسی اور طرح۔۔۔؟
تو نے دوراہا کہا
کر لیا مجھ کو بھی اس میں شامل
شام کو میں نے کیا ہے محسوس
کس قدر دور تلک پھیلے گئی ہے مجھ میں
تو نے محسوس کیا ہے کہ نہیں۔۔۔۔؟
میں تجھے شام سمجھ بیٹھا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *