جانے والے شام سے تیرا کیا مطلب تھا
دکھوں کو دیکھیں تو لگتا ہے یہ جیون
آدھے دن سے پہلے ہی ڈھل جاتا ہو گا
پہلے جتنے دوست تھے سارے آجاتے تھے
اب تو بس لے دے کے دشمن ہی آتے ہیں
ہم اتنی بیگانی دنیا میں رہتے ہیں
جتنا کوئی سوکھے ہوئے اجڑے جنگل میں
تو نے مجھے جو کچھ بھجوایا تھا نا جاناں
کسی عجیب سے شخص نے راہ میں لوٹ لیا ہے
تیرے میرے بیچ بھلا کون آسکتا ہے
لیکن دنیا سو سو سازش کر جاتی ہے
دیکھو تو معمولی سی ہوتی ہیں باتیں
ایک زمانہ جن کا باعث بن جاتا ہے
تم دنیا کی حالت کی باتیں کرتے ہو
ہم تو اپنے آپ سے ہی گھبرائے ہوئے ہیں
پیار میں جتنا کچھ برداشت کیا ہے دل نے
اور کسی جذبے میں تو یہ نا ممکن ہے
رات کی ایک انوکھی بات سنی ہے میں نے
آنکھیں دیکھ کے دل پہچان لیا کرتی ہے
سورج کی خاطر تاریکی آجاتی ہے
اور سمندر چاند کی خاطر جاگ اٹھتا ہے
کٹتے کٹتے تنہائی بھی کٹ جائے گی
ہوتے ہوتے عادی بھی ہو جائے گا دل
ہم جیسے بیچارے دیوانوں کاکیا ہے
شہر بھر میں یا صحراؤں میں دھکے کھائیں
فرحت عباس شاہ