تیرے جاتے ہی

تیرے جاتے ہی
تیرے جاتے ہی یہ دل کانٹوں سے بھر جائے گا
بے قراری کسی آری کی طرح
میری اس پھولی ہوئی سانس سے بندھ جائے گی
جو ترے جانے سے بے تال ہوئی
تیرے جاتے ہی ہوا
درد سے جل جائے گی
چھو کے گزرے گی مجھے
روح پر آبلے مل جائے گی
تیرے جاتے ہی مری تنہائی
پھر سے شریانوں میں بس جائے گی
پھر سے بے چین خیالات کو ڈس جائے گی
جانے یہ ہجر کی ویران سڑک
دور تک کتنے برس جائے گی
تیرے جاتے ہی مری رات، مری بات، مری ذات
بدل جائے گی
وقت کی گھات بدل جائے گی
جیت اور مات بدل جائے گی
دھوپ ہو جائے گی تندیل مکمل اور پھر
ساتھ برسات بدل جائے گی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *