ٹھوکریں

ٹھوکریں
شہر اپنی تاریک چمک سے
چندھیا گیا ہے
اور میں جنگ میں مرے ہوئے بچوں کی لاشیں گنتا پھرتا ہوں
دو درندے آپس میں لڑے ہیں
اور لڑے بھی کب ہیں
دونوں نے اپنی اپنی بھوک مٹانے کے لیے گٹھ جوڑ کیا ہے
اور ہر طرف خون ہی خون بہنے لگ گیا ہے
میں نے ٹی وی چینل پر دیکھا
کیچڑ میں لتھڑے ہوئے کرائے کے ایک غلیظ فوجی نے
اپنے دشمن کی لاش کو ٹھوکر ماری
میں نے گھبرا کر اس کے کریہہ چہرے کی طرف دیکھا
میرے دل نے اس کے منحوس چہرے پر ٹھوکروں کی بارش کر دی
مجھے پتہ ہے میری ٹھوکریں اتنی دوری سے بھی اسے پورے زور سے پڑی ہوں گی
یہ امن اور محبت کے ایک شاعر کی ٹھوکریں ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *