ٹھہرا ہوا پانی

ٹھہرا ہوا پانی
دائروں سے نکل
اپنی آواز کو گنبدوں کی تھکاوٹ سے آزاد کر
ہو سکے تو کبھی
ان ہواؤں سے باہر کے ماحول میں سانس لے
آنکھ دیوار پر مستقل ٹھہر جائے اگر
کان بس ایک ہی شور سننے پہ مجبور ہوں
ایک ہی جسم کا لمس
کیسا بھی دل آفریں کیوں نہ ہو
دیر تک اپنی رعنائیت کا فسوں روک سکتا نہیں
راستے ہوں لکیریں ہوں یا روگ ہوں
راس آتے نہیں
پاس آتے نہیں
زندگی اور فطرت کے معنی سمجھ
دائروں سے نکل
اپنی آواز کو گنبدوں کی تھکاوٹ سے آزاد کر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *