روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا
اب نہ کوئی راہ جچتی ہے نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا
وقت بھی کیسی عجب شے ہے ہمارے سامنے
اک ذرا بیتا تو سب دنیا خیالی کر گیا
عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نرالی کر گیا
چند لمحوں میں طبیعت لا ابالی کر گیا
ہجر کا اسپ پریشاں دل کی ہر اک آرزو
فصل لاوارث سمجھ کر پائمالی کر گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)