اور کرنا سفر اداسی میں
شام ہوتے ہی جانے کیوں میرا
ڈوب جاتا ہے گھر اداسی میں
چھوڑو ایسی بھی کوئی بات نہیں
کوئی جاتا ہے مر اداسی میں
روزکے روز پینے والوں پر
مختلف تھا اثر اداسی میں
جانے کیا بات دل میں ہوتی ہے
کھلا رہتا ہے در اداسی میں
پھر تمہیں فون کی اجازت ہے
یاد آؤں اگر اداسی میں
اس نے بھی جان بوجھ کر اپنی
مجھ کو دی ہے خبر اداسی میں
میں تو رہتا ہوں بے نیاز بہت
اس کو لگتا ہے ڈر اداسی میں
لگنے لگتے ہیں مجھ کو تم جیسے
سارے شمس و قمر اداسی میں
فرحت عباس شاہ