جب بھی رُت گدرائی موسم بھیگا آنکھیں بھیگ گئیں

جب بھی رُت گدرائی موسم بھیگا آنکھیں بھیگ گئیں
جب بھی چاند ذرا آنگن پہ ٹھہرا آنکھیں بھیگ گئیں
تیز ہوا جب ہم کو پاگل کہہ کر پاس سے گزری تو
ہم نے اُس کی بات پہ ہنسنا چاہا آنکھیں بھیگ گئیں
کوئی سرد ہوا کا جھونکا چھُو کر گزرا بالوں کو
کوئی بادل سا آنکھوں میں اُترا آنکھیں بھیگ گئیں
کل میں یونہی غیر ارادی طور پہ سادہ کاغذ پر
لکھتے لکھتے جانے کیا لکھ بیٹھا آنکھیں بھیگ گئیں
فرحت جی مت پوچھو ہم جیسے دیوانوں کی خوشیاں
ہنستے ہنستے جونہی دل میں جھانکا آنکھیں بھیگ گئیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *