دل بہت بےقرار رہتا ہے
روح کو بے بسی سی رہتی ہے
درد با اختیار رہتا ہے
دل ہے بے چینیوں کی مٹھی میں
ذہن پر تُو سوار رہتا ہے
اک ترا دھیان آریوں کی طرح
روح کے آر پار رہتا ہے
وہم یہ ہے مجھے کہ تیری طرف
اک مرا غم گسار رہتا ہے
شب بہت بے قرار رہتی ہے
دن بہت سو گوار رہتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)