کوئی فرہاد نہیں رہتا
جو گر جاتا ہے نظروں سے
وہ مجھ کو یاد نہیں رہتا
جب دل سے اُتر جاتا ہے کوئی
یہ گھر آباد نہیں رہتا
اب صبر مجھے آجاتا ہے
اب جی ناشاد نہیں رہتا
جیون بھی تو اک پنجرہ ہے
پنچھی آزاد نہیں رہتا
کچھ بھی ہو زیادہ دیر کبھی
یہ دل برباد نہیں رہتا
فرحت عباس شاہ