اُڑتے پھرتے ہیں ہر سُو اَرمان پیا
پیڑ بھی تم بن اُکھڑے اُکھڑے پھرتے ہیں
اور راہیں بھی پھرتی ہیں ویران پیا
تو نے کون سا پیچھے مڑ کر دیکھا ہے
ہنستا بستا شہر ہوا سنسان پیا
دُکھ میں سب ہو جاتے ہیں انجان پیا
ان باتوں پہ کیا ہونا حیران پیا
عقل پہ پردہ پڑتا ہے تو پڑنے دے
جاتا ہے تو جانے دے ایمان پیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)