جدائی کی ایک نظم

جدائی کی ایک نظم
عمر بیتی ہے جنہیں ہجر کی پیمائش میں
ہم سیہ بخت، ترے فاصلہ بردار، مسافر شب کے
رات آتی ہے تو چل پڑتے ہیں
بے بہا سلگی ہوئی یاد کے انگاروں پر
روح برسات میں بھڑکی ہوئی آتش ہے کہ بجھتی ہی نہیں
رات آتی ہے تو گر پڑتے ہیں
تیرے اندوہ کی نم غاروں میں
کون اب آکے نکالے گا ہمیں
کون ٹھہرائے گا بکھرے ہوئے پتوں کے نصیب
ہم جو روندے ہوئے رستوں کی طرح
آہ بھی بھرتے ہوئے ڈرتے ہیں
جانے پھر کونسی ویرانی گزر جائے اچانک کسی ویرانی سے
ہم جو ٹھٹھکے ہوئے بچوں کی طرح
سانس بھی لیتے ہوئے مرتے ہیں
زندگانی کسی مرجھائے ہوئے دل کی طرح
سوگ کے کپڑوں میں لپٹی ہوئی بیوہ ہے کوئی
کوئی دم بھر بھی ٹھہرتے ہیں کسی آس کی چھاؤں میں تو رو پڑتی ہے
اور ہم پھر سے نکل پڑتے ہیں
ہم سیہ بخت، ترے فاصلہ بردار مسافر شب کے
عمر بیتی ہے جنہیں ہجر کی پیمائش میں
رات آتی ہے تو چل پڑتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *