رات روتی ہے بچھڑ کر تم سے
چاند گم سم ہے ہوا بند فضاؤں کی طرح
انگلیاں کانپتی ہیں
ہونٹ یکلخت کسی ظالم و بے رحم تشنج سے لپٹ جاتے ہیں
جب کبھی بند دریچوں کی طرف دیکھتا ہوں
ہوک اٹھتی ہے مرے سینے کی گہرائی سے
بارشیں بچھڑے ہوئے لوگوں کی
کس قدر دوست ہوا کرتی ہیں
برف کر دیتی ہیں جلتے ہوئے انگاروں کو
اور کبھی برف کو آتش میں بدل دیتی ہیں
آج میں عمر کے اس حصے تک آ پہنچا ہوں
جب بدن ٹوٹنے لگتا ہے تو جاں چیختی ہے
ایک حیرت کہ یہ مجروح بدن
اپنی تنہائی میں پابند ہے مجذوب کی خواہش کی طرح
جاں کبھی چیخنے لگتی ہے تو جاتی ہے بکھر
میری ویرانی
مری بے چینی
تیری جاں سوز جدائی کی المناکی میں
اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ سلجھتے ہی نہیں
جس طرح کانٹوں بھری شاخ میں آنچل کوئی
تھوڑا کھنچتا ہے تو کچھ اور الجھ جاتا ہے
دن بلکتا ہے ترے ہجر کے سونے پن میں
شام گھبرا کے سسک اٹھتی ہے
رات روتی ہے بچھڑ کر تم سے
انگلیاں کانپتی ہیں ہونٹ یک لخت کسی ظالم و بے رحم تشنج سے لپٹ جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)