پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھاؤں میں تھی
ایک پُر ہیبت سکوتِ مستقل آنکھوں میں تھا
ایک طغیانی مسلسل دل کے دریاؤں میں تھی
ہم ہی ہو گزرے ہیں خود اپنے شہر میں اجنبی
وہ جہاں بھی تھی وہاں اپنے شناساؤں میں تھی
اک صدا سی برف بن کر گر رہی تھی جسم پر
ایک زنجیرِ ہوا تھی جو مِرے پاؤں میں تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)