جلے ہوئے گلاب

جلے ہوئے گلاب
میرے پاس اب سردیوں کے کسی موسم کی کوئی یاد باقی نہیں
تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ زیادہ اچھے حافظے تمھیں پسند نہیں
نہ اپنے لیے نہ دوسروں کے لیے
گرم رتوں کی کوئی بھی چاند رات تمھارے مزاج کے مطابق نہ تھی
اور میں تو شروع دن سے ہی شب مزاج شخص ٹھہرا
مجھ سے ہلکی ہلکی جذباتی اور دلی مفائرت اور بیگانگی
تمھیں ہمیشہ رہی ہے
اچھے تعلقات کے دنوں میں بھی
تم بھی میری طرح سے خزاں نصیب ہی تھے لیکن سب کچھ
خود تمھاری ہی وجہ سے تھا
تم تھے ہی ایسے زرد خُو
میں تو اپنے تمام گلاب تمھارے راستوں میں لیے پھرا
اور تمھیں پتہ بھی تھا
آخر میں کب تک ان گلابوں کو اپنے خون پر زندہ رکھتا
خون کی کمی بدن کے ساتھ ساتھ ذہن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے
میرے پاس
اب سردیوں کے کسی موسم کی کوئی یاد باقی نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *