جن المناک شب و روز میں ہم ہیں اس پل

جن المناک شب و روز میں ہم ہیں اس پل
صرف (دکھلاوے کی) زنجیر ہلا دینے سے کون آئیگا
زیست کا جرم ہے کیا اور ہمارا کیا ہے
کھڑ کھڑاتے ہوئے لمحوں کا سفر دریا میں
اور دریا کا سفر صحرا میں
اور صحرا کا سفر آنکھوں میں
آنکھ کا آنکھ کی تصویر میں
تصویر کا بے چینی میں
درد کا جرم ہے کیا اور ہمارا کیا ہے
کپکپاتا ہوا دل
کپکپاتے ہوئے دل کے اندر
گرم احساس پہ برفاب گرا دینے سے
لہر رک جاتی نہیں
اور یخ بستہ خدوخال کی بنیادوں میں
آگ کا سوگ منا لینے سے کیا ہوتا ہے
اور یہاں جن المناک شب و روز میں ہم ہیں اس پل
وحشت جان سے طوفان اٹھا دینے سے کون آئے گا
اور جس جا پہ بہت شور ہو زندانوں کا
صرف دکھلاوے کی زنجیر ہلا دینے سے کون آئے گا
زیست کا جرم ہے کیا
اور ہمارا کیا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *