جہاں تیرے میرے تمدنوں کی جدائی تھی

جہاں تیرے میرے تمدنوں کی جدائی تھی
اسی چوک پر ہے معاشرت کا معانقہ
مجھے آسمانوں پہ وہم ہے ترے سہم کا
مجھے چاند تاروں پہ آنسوؤں کا گمان ہے
وہ جو قافلے نہ جنوں کے تھے نہ خرد کے تھے
انہیں پیس ڈالا ہے راستوں نے لتاڑ کر
مجھے تیری چپ سے ملال رہتا ہے دیر تک
مجھے زندگی کی قطار میں بھی ملا کرو
غم دل نے اپنے لیے الگ ہی جگہ چنی
کہ خیال و خواب کی کونپلوں میں دبک گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *