کسی جلتی بجھتی مچلتی آنکھ کا دشت ہے
جہاں چپکے چپکے جہاز اترے ہیں گرد کے
چلی آ رہی ہیں اتر اتر کے خموشیاں
کئی بیگ پکڑے ہوئے ہیں ہاتھوں میں درد کے
کسی موڑ پر
کئی زرد رنگ مسافروں کی قطار میں
کسی راہ میں کوئی تھک کے بیٹھ گیا ہے سوچ بچار میں
کسی شہر میں کئی غول پھرتے ہیں
مارے مارے بخار میں
کسی جلتی بجھتی مچلتی آنکھ کا دشت ہے
جہاں ہر قدم پہ مزار ہے
چلی آ رہی ہیں مزار سے کئی حسرتیں
جنہیں راستوں کی خبر نہیں
جنہیں منزلوں کا پتہ نہیں
جنہیں گھومنا ہے یہیں کہیں
اسی بے نشان دیار میں
اسی غار میں
فرحت عباس شاہ