جہاں ہم ہیں
یہاں تو اعتراف درد بھی اک مسئلہ ٹھہرا
محبت کی سزا واری پشیمانی بنی
جورو ستم کی ہمقدم ہو کے
دل پامال کے اجڑے ہوئے رستوں پہ ایسے دندناتی ہے
کہ جیسے رات کے پچھلے پہر
تنہائی خاموشی سے مل کے روح کے گم سم دریچے دھڑ دھڑاتی ہے
جہاں ہم ہیں
غم دنیا غم وابستگی کی آڑ میں
اکثر تمناؤں کے بازو تھام کے دھچکے لگاتا ہے
غمِ دنیا، پرایا پن نہیں تو اپنا پن بھی ہو نہیں سکتا
جہاں ہم ہیں
کف افسوس ملنے کی بھی قیمت دینا پڑتی ہے
تاسف بک نہیں سکتا مگر شاید تاسف کی خریداری تو لازم ہے
دل ملزوم تو بیچارگی کی نوک پر اٹکا
کسی دیوار سے لٹکا نمونہ ہے
کوئی دیکھے نہ دیکھے ذات کے شوکیس میں گم سم سجا احساس سے
آنکھیں چرائے منتظر رہتا ہے
نا محسوس لمحوں کا
یہ اک غم ہے مگر یارو یہاں ایسے ہی کتنے اور بھی غم ہیں
جہاں ہم ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)