اے وحشتِ دل عالم بالا بھی قفس ہے
دیکھا ہی نہیں چاند کو باہر کبھی اس سے
اس طرح تو یہ چاند کا ہالہ بھی قفس ہے
کیا جانئیے وہ زخم مسافت کا کریں کیا
ان کو تو ذرا پاؤں کا چھالا بھی قفس ہے
ہونٹوں کے لیے لفظوں کا انبوہ بھی ہے چپ
آنکھوں کے لیے تیز اجالا بھی قفس ہے
پنچھی کو تو ہے پھر بھی وہیں رہنے دیا قید
سینے سے نکالا تو نکالا بھی قفس ہے
فرحت عباس شاہ