چاہے سو دریا گزریں

چاہے سو دریا گزریں
صحرا تو پھر صحرا ہے
تیرے قدموں کے باعث
ریت سے خوشبو آتی ہے
اتنا لمباصحرا تھا
چلتے چلتے عمر ڈھلی
تھک جاؤں تو چپ کر کے
ٹیلے پر سو جاتا ہوں
آگ برستی ہے دن میں
رات خنک ہو جاتی ہے
ریت بگولے نخلستاں
صحرا کی آبادی ہیں
تیرے باعث دل میں بھی
اک صحرا ہے آن بسا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *