بڑے بڑے مزاروں سے بہتر ہوتی ہیں
ان پہ کوئی یاد دلانے نہیں آتا
مر گئے تو بس مر گئے
ہر سال میلہ نہیں لگتا
موت اور موت کا جشن
موت تو بھلا دی جانے والی شئے ہے
یہ اور بات ہے کہ آسانی سے بھلائی نہیں جا سکتی
بلکہ شاید سرے سے بھلائی ہی نہیں جاسکتی
میں نے بہت کوشش کی ہے
اپنے سینے میں تمہاری موت کے اگے ہوئے درخت کو اکھاڑ پھینکوں
خاردار اور نوکیلے درخت کو
اور ہمیشہ زیادہ زخمی ہو بیٹھا ہوں
بدن کا بدن تک پرویا جاتا رہا ہے
مجھے اپنی موت کے دکھ سے نکالو
میری روح پر سے اپنا مزار اٹھا لو
کہیں کوئی چھوٹی سی قبر ہی بہت ہے
میری آنکھوں سے خون بہتا ہے تو مجھے چھپانا پڑتا ہے
خود سے بھی اور لوگوں سے بھی
دامن پر لگی سرخی
پھر بھی بہت کچھ بتا دیتی ہے
مجھ سے یہ جشن سہا نہیں جاتا
بارش اور برستے ہوئے آنسوؤں کا رقص
دل کا فرش ادھیڑے دے رہا ہے
آنسوؤں کی آبی ایڑیاں
دل کی زمین میں اتر اتر جاتی ہیں
دھول اڑتی ہے
بہت ہی گہری اور سرخ دھول اڑتی ہے
فرحت عباس شاہ