ڈوب جاتے ہیں تری ذات میں ہم
ڈھل گئی عمر ترے وعدے میں
ہو گئے بوڑھے بس اک رات میں ہم
اس سے پہلے کہ کوئی اور کہے
خود ہی رہ لیتے ہیں اوقات میں ہم
دیکھ ! ہیں کیسے نکھرتے آتے
ایک سے ایک ملاقات میں ہم
نیند کی آڑ میں خوابوں کے تلے
بیٹھ جاتے ہیں تری گھات میں ہم
ناگہاں عشق کے حالات میں ہم
سارا کچھ ہار گئے بات میں ہم
پست آتے تھے نظر ہفت افلاک
اتنے ارفع ہوئے درجات میں ہم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)