آنکھوں میں اس کے خواب سہانے نہیں رہے
ملنے کو آہی جاتا ہے ہر چند روز بعد
لگتا ہے اس کے پاس بہانے نہیں رہے
لرزش ہے ہاتھ میں تو نظر بھی ہے دھندلی
پہلے سے اب وہ دل کے نشانے نہیں رہے
اٹھتی نہیں ہے شوق و تجسس کے باوجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے
کمرے سے بھر گئے ہیں مسائل کی گرد سے
دل میں ترے خیال کے خانے نہیں رہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)