باطن
مجھے اس سڑک سے نفرت ہے
جس پر کسی کے خون کے دھبے پڑے ہوں
مجھے اس گھر میں رہنا پسند نہیں
جس کی بنیاد کسی کے سینے پہ رکھی گئی ہو
میں اس راستے پہ نہیں چل سکتا
جہاں کسی کو ٹھوکر لگی ہو
میں اس گلی میں کیسے جاؤں
جس میں کوئی دروازہ نہیں کھلتا
میں اس بازار میں کیوں جاؤں
جہاں میری بھی قیمت لگ جائے
میں اس شہر میں کیا کروں
جہاں ویرانی ہی ویرانی ہو
میں اسے سائبان کیسے مانوں
جو کئی بار گر چکا ہو
میں اس زمین پر بوسہ کیسے دوں
جہاں قدم قدم پر جال بچھائے گئے ہوں
اور آگ بو دی گئی ہو
فرحت عباس شاہ