پیسے پیسے کو ترس جائے گی خلقت اک دن
ہم کو معلوم نہ تھا شہر کے ہر کونے میں
صرف اور صرف نظر آئے گی وحشت اک دن
لوگ معصوم ہیں ان کے تو تصور میں نہ تھا
ایسی ہو جائے گی اس ملک کی حالت اک دن
لوٹنے والے کو معلوم تھا ایسا ہو گا
منہ چڑائے گی ہر اک شخص کا غربت اک دن
لوٹنے والے اڑائیں گے حکومت کے مزے
سب کو یہ دن بھی دکھائے گی سیاست اک دن
دھول اب اتنی بھی آنکھوں میں نہ جھونکو یارو
ختم ہو جائے گی لوگوں کی بصارت اک دن
آج سے پہلے کسی نے کبھی سوچا ہو گا
موت بن جائے گی چھوٹی سی ضرورت اک دن
یہ تو اب طے ہے کہ اس ملک میں رہ کر فرحت
ہم کو لے ڈوبے گی اپنی ہی شرافت اک دن
فرحت عباس شاہ