دنیا درد نہ جانے امڑی
دل سے دُور دراز
دل سے دور دراز بسے ہے
دنیا دُور دراز
اشک لہو میں گھُل مل جائیں
سینہ سسک سسک سہلائیں
آہیں بے آواز
دُور دُور تک روح میں گونجیں
خاموشی کے ساز
جانے کس نقطے پر جا کر
کھلے غموں کا راز
ابھی تو ہے آغاز نی امڑی
ابھی تو ہے آغاز
دنیا درد نہ جانے امڑی
دل سے دُور دراز
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)